میرے آباء کی زمیں
(غلامی
کے طویل سالوں
کی نظم
میرے اجداد کا مدفن میرے آباء کی زمیں
تُو بلوچوں کی ہے پارینہ اخوت کی امیں
ہیں تِری خشک چٹانیں مِری نظروں میں حسیں
میرے اسلاف کا خوں اب بھی رواں ہے تجھ میں
خادمِ قوم ہی تھے قوم کے سردار سبھی
سب زر و مال لُٹا دیتے تھے زردار سبھی،
شجرِقوم میں یکساں تھے گُل وخار کبھی
اُن سے باقی کوئ مٹتا سا نشاں ہے اب بھی
رہبرِقوم ہیں اب قوم کے غدار ہیں جو
خون پیتے ہیں غریبوں کا وہ زردار ہیں جو
ہر جگہ بیچتے ہیں قوم کو سردار ہیں جو
ستم و جور وجفا گرم یہاں ہے اب بھی
تیرا ماضی تو درخشاں تھا مگر حال ہے یہ
عسروافلاس و تباہی کا سیاہ سال ہے یہ
اور سرمایہ پرستوں کی بڑی چال ہے یہ
دانہ پردام نہ ہونے کا گماں ہے اب بھی
پر مجھے غم نہیں سنگین چٹانوں میں تِرے
کروکوہ میں آوارہ شبانوں میں تِرے
اور نادر کئ خواببیدہ جوانوں میں تِرے
کوئ نورا کوئ مہراب نہاں ہے اب بھی
میرے اجداد کا مدفن میرے آباء کی زمیں
تُو بلوچوں کی ہے پارینہ اخوت کی امیں
ہیں تِری خشک چٹانیں مِری نظروں میں حسیں
میرے اسلاف کا خوں اب بھی رواں ہے تجھ میں
خادمِ قوم ہی تھے قوم کے سردار سبھی
سب زر و مال لُٹا دیتے تھے زردار سبھی،
شجرِقوم میں یکساں تھے گُل وخار کبھی
اُن سے باقی کوئ مٹتا سا نشاں ہے اب بھی
رہبرِقوم ہیں اب قوم کے غدار ہیں جو
خون پیتے ہیں غریبوں کا وہ زردار ہیں جو
ہر جگہ بیچتے ہیں قوم کو سردار ہیں جو
ستم و جور وجفا گرم یہاں ہے اب بھی
تیرا ماضی تو درخشاں تھا مگر حال ہے یہ
عسروافلاس و تباہی کا سیاہ سال ہے یہ
اور سرمایہ پرستوں کی بڑی چال ہے یہ
دانہ پردام نہ ہونے کا گماں ہے اب بھی
پر مجھے غم نہیں سنگین چٹانوں میں تِرے
کروکوہ میں آوارہ شبانوں میں تِرے
اور نادر کئ خواببیدہ جوانوں میں تِرے
کوئ نورا کوئ مہراب نہاں ہے اب بھی
Brahvi Shayari |